آگ بھڑکانے والے یا بجھانے والے؟
افراطِ زر کو قابو کرنے میں ہماری حکومت کا کردار
ہماری حکومت کی معاشی ٹیم نے پچھلے دو برسوں کی اس کمر توڑ مہنگائی کے بارے میں ایک دلچسپ موقف اپنایا ہے۔ جہاں اس دو سالہ مُدّت میں پاکستان کی بہت سی آبادی اس کی وجہ سے خطِ غربت سے نیچے یا اس کے نزدیک دھکیلی جاچکی ہے وہاں اب اگر شماریات سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مہنگائی کی ’’شرح‘‘ اب کم ہورہی ہے تو یہ بنیادی سوال سراپا احتجاج ہوتا ہے کہ آخر کس قیمت پر؟
جہاں پہلے ہی کاروبار دم توڑ چکے ہیں، بیروزگاری کا سیلاب امنڈ رہا ہے اور گھر ادھار پر چل رہے ہیں، وہاں اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ آگ بجھانے آئے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ آخر یہ آگ بھڑکانے والے کون ہیں؟
حکومتی اقتصادی و مالیاتی ٹیم کی کارکردگی کا احاطہ کیا جائے تو سب سے پہلے تو انکا ناقص بجٹ سامنے آتا ہے جہاں حکومتی اخراجات کی زیادتی کی وجہ سے پہلے ہی بجٹ ’’خسارے‘‘ کا پیش کیا جاتا ہے۔
اس خسارے کے بجٹ پر چلتے ہوئے حکومت مزید نوٹ چھاپتی ہے، قرض لیتی ہے یا ٹیکس بڑھاتی ہے, ان سب سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن حکومت اپنے اخراجات پر نظر، ثانی نہیں کرتی، جو دراصل مہنگائی بڑھنے کی وجہ ہیں۔ پھرحکومتی آمدن کا بڑا حصّہ قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، جو بچتا ہے وہ سیاسی ترقیّاتی منصوبوں کی نظر ہوجاتا ہے اور ہماری اہم ضرورتوں کے کاموں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
خسارے پر چلنے والی حکومت کی ترکش میں تین تیر ہوتے ہیں: قرض، مزید نوٹ چھاپنا اور ٹیکس۔ ماشاءاللہ اس حکومت کی تجربہ کار ٹیم نے یہ تینوں تیر بہ ہدف پاکسانی قوم پر اکٹھے داغ دیئے ہیں اور دوسری جانب ابنِ مریم بھی بنے پھرتے ہیں۔
آجتک حکومت کوئی ایسا اقدام جس سے بنیادی نظام میں بہتری، مستقل معاشی خود مختاری، کاروبار میں آسانی یا برآمدات میں اضافہ ہوتا ہو، کرنے میں مکمّل ناکام نظر آتی ہے۔ پھر حکومت برآمدات سے جڑی درآمدات کے مسئلے کو بھی حل نہیں کرسکی کہ ہماری برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہو۔ نہ ہی حکومت سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں یا قومی بچت بڑھانے میں کامیاب رہی اور نہ ہی کسی قسم کی صنعتی ترقیّ میں اضافہ ممکن ہوا کہ بے روزگاری کم ہوتی نظر آئے۔
اس سلسلے میں کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن وہ ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
اقتصادی ٹیم نیچے کی طرف گرتی معیشت کو بحال کرنے کے لیئے اب کیا اقدامات کر سکتی ہے؟
قلیل مدتی – بجٹ میں توازن پیدا کریں یا اخراجات میں کمی کرکے خسارے کو کافی حد تک کم کریں، قرضے کو کم کریں اور قرض کے انتظام کے لیے ایک منصوبہ تیار کریں اور رقم کی سپلائی کو بڑھانا بند کریں۔
درمیانی مدت – جہاں تک ممکن ہو درآمدات سے برآمدات کو دوگنا کریں، پاور سیکٹر میں اصلاحات کرکے توانائی کی قیمتوں میں کمی لائیں اور ملک کو صنعتی بنانے کا پروگرام شروع کریں۔
مہنگائی کی وجوہات کے سلسلے میں حکومت کو چاہیئے کہ پہلے اپنی کارکردگی پر نظر ثانی فرمائیں اور پھر سوچیں کہ کیا یہ سب کر کے انھیں عوام میں مقبولیت و سراہیت کی توقع بھی رکھنی چاہیئے کہ نہیں؟ کیونکہ عوام اس سب کی پہلے ہی بہت بھاری قیمت ادا کرچکی ہے